لندن،12جولائی(ایس اونیوز/آئی این ایس انڈیا)برطانیہ میں شادی شدہ لڑائی جھگڑوں کے مقدمات میں ثالثی کرنے والی شرعی کونسلوں کو خواتین کے خلاف تعصب کرنے کے الزامات پر تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ان کونسلوں تک رسائی کم ملتی ہے لیکن بی بی سی کے وکٹوریا ڈاربی شر پروگرام نے ایسی ایک کونسل تک رسائی حاصل کی ہے۔برمنگھم کی سینٹرل موسق مسجد میں تین علما میں سے ایک یاسمینہ جو ان کا اصلی نام نہیں ہے سے پوچھتے ہیں کیا وہ سب بھلانا بہت مشکل ہے جو انھوں نے آپ کے ساتھ کیا؟۔یاسمینہ 15سال کی عمر سے ایک طے شدہ شادی میں رہی ہیں اور کہتی ہیں کہ ان کے شوہر نے انھیں ہمیشہ جذباتی اور جسمانی طور پر اذیت دی ہے۔وہ ایک شرعی کونسل میں مدد کے لیے آئی ہیں۔ برطانیہ میں ایسی کم از کم 30کونسلیں ہیں جنھیں شریعت کی عدالتیں کہا جاتا ہے۔یاسمینہ امید کرتی ہیں کہ یہ علما انھیں طلاق دلوائیں گے۔ایک عالم ان سے کہتا ہے لیکن وہ آپ سے بہت محبت کرتے ہیں۔یاسمینا کا جواب، ہاں لیکن یہ کافی نہیں ہے۔ میں اس سے ڈرنے لگی ہوں۔ اسے دیکھتے ہی میرا بدن کانپنے لگتا ہے۔علما یاسمینہ کا کیس سن کر انھیں باہر انتظار کرنے کو کہتے ہیں۔واپس آنے پر انھیں خوش خبری دی جاتی ہے کہ علما نے فیصلہ کیا ہے کہ انھیں فوری طور پر طلاق ملنی چاہیے۔اپنے حق میں فیصلہ سننے کے بعد یاسمینا کہتی ہیں میں بہت حیران ہوں کے علما کو میرے جذبات کی قدر تھی۔ آخر میں آزاد ہو گئی ہوں۔اس طرح کی عدالت کا فیصلہ برطانیہ میں قانونی طور پر تسلیم نہیں کیا جاتا ہے کیونکہ ان کونسلوں کے کوئی قانونی اختیارات نہیں ہوتے ہیں۔لیکن متاثرین خواتین میں سے کئی کا کہنا ہے کہ انھوں نے جسمانی تشدد کی وجہ سے پولیس کی مدد لی ہے۔ان علما کے فیصلوں کو اخلاقی اور ثقافتی طور پر تسلیم کیا جاتا ہے،تاہم کچھ دعوے سامنے آئے ہیں جن کے مطابق کچھ شرعی کونسلیں زبردستی کی شادیوں کو قانونی قرار دیتی ہیں اور خواتین کے ساتھ غیر منصفانہ برتاؤ کرتی ہیں۔برطانیہ میں ایک خیراتی تنظیم کی سربراہ شائستہ گوہر کا کہنا ہے کہ وہ تعصب کی شکار خواتین کے مسائل باقائدہ سے سنتی ہیں.خیراتی تنظیم مسلم ومنز نیٹورک یوکے کی خاتون سربراہ شائستہ گوہر کہتی ہیں ان شرعی کونسلوں کے حوالے سے مجھے خدشات ہیں کیونکہ ہماری ہیلپ لائن پر بہت سے مقدمات مسلسل آتے ہیں۔شائستہ کو خدشہ ہے کہ خواتین سے ان کی ذاتی زندگی کے بارے میں نامناسب سوالات پوچھے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ کچھ مقدمات میں خواتین کو تعصب کا شکار بنایا گیا ہے۔کئی واقعات میں خواتین کو ان کی مرضی کے خلاف اپنے شوہروں کے ساتھ صلح کرنے کو کہا جاتا ہے۔شرعی کونسلوں کی نگرانی نہیں کی جاتی ہے اس لیے ان کی کارروائیوں کا جائزہ لینا مذید مشکل ہو جاتا ہے، بالخصوص چھوٹی کونسلیں جو کسی مسجد سے جڑی نہیں ہوتی ہیں۔مئی میں برطانوی حکومت نے ایک آزاد رویو تشکیل کروانے کا اعلان کیا تھا جو انگلینڈ اور ویلز میں شریعت کے قوانین کا جائزہ یہ لے گا کہ کیا یہ برطانیہ کے قوانین کے ساتھ ہم آہنگ ہیں اور کیا انھیں خواتین کے خلاف تعصب کرنے کے لیے استعمال کیا گیا ہے۔؟۔وزارت داخلہ کا کہنا ہے کہ جائزے کے نتیجے کے لحاظ سے وہ اس بارے میں قانون سازی بھی تجویز کر سکتا ہے۔تاہم کونسلوں کا کہنا ہے کہ وہ ایک بہت ضروری سروس فراہم کر رہے ہیں۔